سيرت طيبه غزوہ احد سے حاصل ہونے والے فوائد ڈاكٹر طاہر صدیق SEERAT TAYYABA NABUWAT SE PEHLE



غزوہ احد سے حاصل ہونے والے فوائد

۱۔ مسلمانوں نے رسول اللہ ﷺ کا حکم ماننے كے بجائے اجتہاد سے كام لیا جس سے یہ  نقصان ہوا کہ بالکل جیتی ہوئی جنگ ہاتھ سے نکل گئی۔

۲۔ تکلیف اور غلطی کے بعد انسان سنبھل جاتا ہے اور آئندہ اس طرح کی غلطی نہیں کرتا۔اللہ تعالیٰ انبیاء کو بھی ابتلاء سے گزار کر کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے۔

۳۔ آزمائش کی گھڑی میں واضح طور پر معلوم ہو گیا کہ سچا کون ہے اور مخلص کون، کمزور دل کون ہے اور منافق اور دشمن کون۔جن لوگوں نے اپنے آپ کو چھپا رکھا تھا وہ سب ظاہر ہو گئے۔

۴۔ اس جنگ میں صبر اور استقامت کی اعلیٰ تعلیم دی گئی۔

۵۔ بعض مسلمانوں نے ایمان بالآخرۃ اور نبی کریم ﷺ کے فرمان پر ایسے عمل کیا کہ دنیا  کے لیے اس سے بڑی مثال نہیں ملتی جیسے کجھور کھاتے ہوئے پھینک دینا کہ جنت میں اس سے اچھی کجھور ملے گی۔

۶۔ اللہ نے یہ بھی بتا دیا کہ وہ جسے چاہتا ہے ہدایت دے کر بلا تاخیر جنت میں داخل كر دیتا ہے۔اصیرم ؓ نامی صحابی نے کلمہ پڑھا، جنگ کی اور شہید ہو گئے۔ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں انہوں نے کوئی بھی نماز نہ پڑھی تھی۔([1])

۷۔ اسلام کے لیے لڑ مرنے پر جنت ہے اور قومیت پہ لڑنے اور مر جانے والے کے لیے جہنم ہے۔اس کی مثال غزوہ احد میں قزمانی نامی شخص کی ہے جس نے بڑی دلیری سے داد شجاعت دی اور زخموں سے چور اپنے محلے میں پہنچا اور کہنے لگا میں اپنی قوم کی خاطر لڑ رہا تھا، اور کوئی مقصد  نہ تھا۔ بالآخر اس نے شدتِ تکلیف سے خود کو ذبح کر دیا۔([2])

سیدہ زینب بنت خُزَیمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک ۵۵ سال ۹ماہ تھی جب آپ نے سیدہ زینب بنت خزیمہ سے عقد نکاح کیا۔ یہ ذی القعدہ یا ذی الحجہ ۳ھ  کا واقعہ ہے۔ سیدہ زینب بنت خزیمہ،قبیلہ قریش سے تعلق رکھتی تھیں ان كے پہلے شوہر كا نام جہم بن عمرو تھا، جو ان كا چچا زاد بھائی تھا۔اس سے علیحدگی كے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی عبیدہ بن حارث بن عبدالمطلب كی بیوی بنیں اوروہ بدر میں شہادت پا گئے تھے ۔([3])

ایک روایت یہ ہے کہ عبداللہ بن جحش  سے نکاح ہوا تھا اور انہوں نے احد میں جام شہادت نوش فرمایا تو یہ بیوہ ہو گئیں۔ قاضی محمد سلمان نے رحمة العالمین میں دونوں کو صحیح قرار دیا ہے۔([4]) حضورؐسے نکاح کے بعد چند ماہ تک حیات رہیں اور پھر ربیع الثانی ۴ ہجری میں وفات پا گئیں۔ بوقت وفات عمر مبارک صرف ۳۰برس تھی۔ سیدہ زینب دوسری اور آخری زوجہ طاہرہ تھیں جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں وفات پا ئی،۔ آپؐ نے خود جنازہ پڑھایا اور جنت البقیع میں دفن ہوئیں۔ سیدہ خدیجہ اور سیدہ زینب کے علاوہ تمام امہات المؤمنین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد زندہ رہیں۔

سیدہ زینبؓ نے بیت نبوی میں انتہائی قلیل عرصہ گزارا اور عنفوان شباب ہی میں دنیا سے رخصت ہو گئیں لیکن ایسے دو القاب آپ کی ذات گرامی کے ساتھ منسلک ہو گئے جن سے بہتر القاب نہیں ہو  سکتے، ایک ام المساکین اور دوسرا ام المؤمنین۔آپ ہمیشہ مساکین و فقرا کا خیال رکھتی تھیں اور ان پر خرچ کرتیں۔جو دوسخا کی یہ صفت اسلام لانے کے بعد نہیں بلکہ قبول اسلام سے پہلے،بلکہ دورِ جاہلیت ہی میں وہ ام المساکین کے لقب سے مشہور ہو گئی تھیں۔

قانون وراثت کی تفصیل

قانون وراثت کی تفصیل سورۃ نساء کی متعدد آیات میں نازل ہو ئی۔خو د اللہ تبارک وتعالیٰ نے مرنے والوں کے ورثاء جن میں باپ کی طرف کے رشتہ داروں کے ساتھ ساتھ ماں کی طرف کے رشتہ داروں کا بھی ذکر بھی کیا اور قانون وراثت میں کوئی ابہام باقی نہ رہا۔ اس سے پہلے ذوی الفروض کا ذکر ہوتا تھا لیکن اب ذوی الارحام کا بھی ذکر کیا گیا نیز ماں باپ اور بیوہ کے حصوں کی تفصیل بیان ہوئی۔اب تک مسلمان مشرکہ عورت سے شادی کرسکتا تھا اور جن صحابہ کرام کی بیویاں مشرک تھیں وہ ان کے ساتھ رہتی تھیں مگر اب  یہ حکم  نازل ہو گیا کہ مسلمان مشرکہ سے شادی نہ کرے، اگر چہ وہ اسے کتنی ہی اچھی کیوں نہ لگے۔

حرمت شراب کا حکم

اسلام کے احکام میں تدریج کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ الٰہی تعلیمات میں اس کی سب سے بڑی مثال حرمتِ شراب ہے۔ شراب مکہ ومدینہ میں ایک متداول مشروب تھا۔ہر خاص وعام شراب بناتا اور پیتا تھا۔ اس کو پینا نہ صرف یہ کہ عار  یا  شرم کی بات نہ تھی بلکہ شرابی کو سخی وکریم کا لقب دیا جاتا تھا۔ جس کے ہاں زیادہ شراب نوشی ہوتی  وہ قوم کا لیڈر ہوتا تھا اور حالت شراب میں لوگ آپے سے باہر ہو جاتے  تو ان کی سخاوت، کرم، شجاعت اور بندہ پروری نمایاں ہو جاتیں، نہ انہیں جان کی فکر رہتی تھی نہ مال کی۔ اس لیے ایسی عادت کو ختم کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انتہائی حکیمانہ اسلوب اختیار کیا۔سب سے پہلے مکہ مکرمہ ہی میں حکم نازل ہوا :

    وَمِنْ ثَمَرٰتِ النَّخِیْلِ وَالْاَعْنَابِ تَتَّخِذُوْنَ مِنْھُ سَکَرًا وَّرِزْقًا حَسَنًا ([5])

 ’’(اسی طرح) کھجور کے درختوں اور انگُور کی بیلوں سے بھی ہم ایک چیز تمہیں پلاتے ہیں جسے تم نشہ آور بھی بنا لیتے ہو اور پاک رزق بھی۔یقیناً اِس میں ایک نشانی ہے عقل سے کام لینے والوں کے لیے۔‘‘

اس آیت میں یہ بتا دیا گیا کہ یہ جو تم ان پھلوں سے بناتے ہوں اس میں سکر (نشہ) بھی ہے اور اچھا رزق بھی، یہ دو قسم کے کھانے پینے ہیں اچھے اور نشہ والے۔

اس کے بعد ایسے بھی ہوتا تھا کہ بعض لوگ مسجد میں آتے، نماز پڑھتے لیکن نشے کی وجہ سے انہیں پتہ ہی نہ چلتا کہ کیا پڑھا  اور کتنا پڑھا ہے۔ صحابہ کرام ؓ اس بات سے پریشان تھے کہ شراب حلال بھی ہے اور حالت غیر بھی کردیتی ہے۔ اب دوسرا حکم نازل ہوا :

 یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ قُلْ فِیْھِمَآ اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَاِثْمُھُمَآ اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِھِمَا ([6])

’’پوچھتے ہیں : شراب اور جوئے کا کیا حکم ہے؟ : ان دونوں چیزوں میں بڑی خرابی ہے۔ اگرچہ ان میں لوگوں کے لیے کچھ منافع بھی ہیں، مگر ان کا گناہ ان کے فائدے سے بہت زیادہ ہے۔‘‘

اس آیت میں گزشتہ آیت کی نسبت زیادہ تفصیل سے بتا دیا گیا کہ اس میں نفع تو ہے لیکن گناہ نفع کی نسبت بہت زیادہ ہےمگر اب بھی حرمت کا واضح حکم نہیں دیا گیا تا کہ لوگوں کے دلوں میں اس کے بارے میں نفرت بڑھتی چلی جائے۔ایک مرتبہ مدینہ منورہ میں ایک صحابی نے نماز پڑھائی اور انہیں نشے کی وجہ سے پتہ ہی نہ چلا کہ قرآن کتنا اور کیا پڑھا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بات پہنچی تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے حکم نازل فرمایا:

 یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَاَنْتُمْ سُکٰرٰی حَتّٰی تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ ([7])

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم نشے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جاوٴ۔نماز اُس وقت پڑھنی چاہیے جب تم جانو کہ کیا کہہ رہے ہو۔‘‘

اس آیت میں شراب پینے کے بعد نماز پڑھنے سے روک دیا گیا یہاں تک کہ نشہ کی حالت جاتی رہے۔اسی طرح ظہر کے بعد لوگ شراب نہ پیتے کیونکہ عصر تک نشہ نہ جاتا تھا،عصر کے بعد اس لیے نہ پیتے کہ مغرب کی نماز خراب نہ ہو اور مغرب کے بعد اس لیے نہ پیتے کہ عشاء کی نماز خراب نہ ہو اور عشاء کی نماز تاخیر سے ہوتی اس لیے بعد میں نیند کے غلبے سے یہ کام نہ ہو پاتا۔اس طرح لوگوں میں یہ عادت کم تر ہوتی چلی گئی۔

آخری حکم

سید نا عمر رضی اللہ عنہ نے خواہش ظاہر  کی کہ اللہ تعالیٰ شراب کے بارے میں ہمیں کوئی قطعی حکم دے دے تاکہ ہم یک سو ہوجائیں۔([8])چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ربیع الاول ۴ ہجری میں قطعی حکم نازل فرمایا:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْھُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ([9])

 ’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، یہ شراب اور جُوا اور یہ آستانے اور پانسے، یہ سب گندے شیطانی کام ہیں، ان سے پرہیز کرو، اُمیّد ہے کہ تمہیں فلاح نصیب ہوگی۔‘‘

حکمت الٰہی کے مطابق بتدریج اس عادت کو پہلے ہی ختم کر دیا گیاتھا، اب جو شخص شراب پی رہا تھا اس نے پیالہ ہاتھ سے چھوڑ دیا، جس کے حلق میں تھی اس نے الٹی کی، جس کے گھر مٹکے پڑے تھے اس نے مدینہ کی گلیوں میں بہا دیے۔

حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے شراب حرام کر دی ہے، جو یہ آیت پڑھے اور اس کے پاس شراب ہو تو نہ اسے پیئے اور نہ بیچے۔ راوی کہتے ہیں کہ لوگوں نے شراب گلیوں میں بہادی۔([10])  

ثمامہ كے ساتھ حكمت عملی اور فتح نجد کی نوید

جانثار انِ رسول مشرقی سرحدوں کی دیکھ بھال کے لیے نجد کی طرف گئے تو واپسی پر ثمامہ بن اثال نامی سردار کو گرفتار کر لائے اور مسجد نبوی کے ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو فرمایا: ثمامہ تمہارے پاس کہنے کو کیا ہے، تمہارا کیا خیال ہے میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں گا؟کہنے لگے :اے محمد! اگر آپ قتل کردوگے تو خون کا بدلہ ہوگا،([11]) اور اگر احسان کروگے تو شکر گزار رہوں گا، اگر مال چاہتے ہو تو جتنا مانگو،ملے گا۔ آپؐ مکالمہ کے بعد تشریف لے گئے دوسرے روز پھر یہی مکالمہ،اور یہی سوال جواب ہوئے۔ تیسرے روز پھر آپ ؐ نے پوچھا تو ثمامہ نے وہی جوابات دیے، اس پر آپ نے فرمایا: ثمامہ کو رہا کردو۔

 رہائی کے بعد وہ فوراًقریبی نخلستان گئے، غسل کیا اور واپس آکر  کلمہ شہادت پڑھ کر مسلمان ہوگئے۔ اسلام لانے کے بعدوہ  اسلام کے لیے عظیم سرمایہ ثابت ہوئے۔ انہوں نے اسی موقع پر فرمایا: اللہ کی قسم اس دنیا میں آپ سے زیادہ نفرت مجھے کسی سے نہ تھی اور اب آپ سے زیادہ محبت کسی سے نہیں۔پہلے اس دین سے برا دین کوئی نہیں لگتا تھا، اب اس دین سے اچھا دین کوئی لگتا۔اللہ کی قسم آپ کے شہر سے ناپسندیدہ شہر  میری نظر میں کوئی نہ تھا،اب اس شہر سے محبوب شہر کوئی نہیں رہا۔میرا عمرہ کرنے کا ارادہ تھا لیکن ان لوگوں نے مجھے گرفتار کر لیا اب آپ حکم فرمائیں تو میں عمرہ کے لیے جاؤں؟آپؐ نے اجازت مرحمت فرمادی۔ مکہ پہنچے۔اہل مکہ نے کہا : ثمامہ! سنا ہے تم بھی بے دین ہو گئے؟

 فرمایا : نہیں، میں رسول اللہ پر ایمان لا کر مسلمان بن گیا ہوں اور یہ بھی سن لو  یمامہ سے تمہارے لیے گندم کا ایک دانہ بھی نہ آئے گا جب تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اجازت نہ دے دیں۔([12])

چنانچہ یمامہ پہنچنے کے بعد ثمامہ نے اعلان کر دیا کہ یہاں سے مکہ کے لیے کوئی اناج نہیں جائے گا بلکہ مکمل اقتصادی پابندی ہو گی جب تک کہ رسول اللہ حکم نہ دے دیں۔ اہل مکہ نبی کریم ؐ کے نہ صرف جانی دشمن تھے بلکہ پے درپے حملے کرچکے تھے اور اب بھی حملے کی تیار ی کر رہے تھے، اس کے باوجود انہوں نے درخواست کی کہ: اے محمد ہمارے بچے بھوک سے بلبلا رہے ہیں، ہمارے اناج کو بند نہ کیا جائے۔ رحمت عالمؐ نے ثمامہ کو لکھا کہ اہل مکہ کو اناج لے جانے دو۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کمال تدبر نے ثمامہ کو جانثار بنا دیا اور ثمامہ بہترین مؤمن ثابت ہوئے، مسلمانوں کے لیے رحمت اور کافروں کے لیے عذاب بن گئے۔ انتہائی مشکل حالات میں دین پر ڈٹے رہے۔مسیلمہ کذاب کے زمانے میں اہل حق کے ساتھ رہے۔ وہ پہلے مسلمان تھے جنہوں نے مدینہ سے جاکر  عمرہ کیااور اپنے اسلام کا اعلان کیا۔ وہ یمامہ اور نجد میں دشمنانِ رسولؐ کے خلاف بہترین ہتھیار ثابت ہوئے۔

تبلیغی وفود

ادھر رسول اللہ صلی اللہ وعلیہ وسلم نے تبلیغی ودعوتی وفودبھیجنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اسی سلسلہ میں عاصم بن ثابت انصاری ؓ کی قیادت میں دس رکنی وفد بعض قبائل کی تعلیم وتبلیغ کے لیے روانہ کیا تو ان لوگوں نے اسلامی احکام سیکھنے کے بجائے تمام داعیانِ اسلام کو شہید کردیا۔اسی طرح اہل نجد کی طرف ۷۰ قراء کرام جو قرآن کریم کے بہترین معلم تھے، ان کے کہنے پر بھیجے لیکن ظالموں نے تمام افراد کو بری طرح شہید کردیا، صرف تین صحابہ زندہ بچے جن میں سے حضرت کعب بن زید زخمی حالت میں تھے اور خندق تک زندہ رہے۔ اسی طرح حضرت عمروؓ بن امیہ ضمری اور حضرت منذرؓ بن  عقبہ بن عامر اونٹوں کے ساتھ تھے، انہیں خبر ہوئی تو دوڑتے ہوئے آئے، منذر ؓبھی لڑتے ہوئے شہید ہو گئے اور عمرو ؓبن امیہ ضمری قید ہو کر دشمن کے قبضے میں آگئے۔ بعد میں انہیں دشمنوں کے سردار عامر بن طفیل نے اپنی ماں کی نذر کے طور پر رہا کر دیا۔([13])  

حضرت عمروؓ بن امیہ ضمری نے واپسی پر قرقرہ کے مقام پر بنی کلاب کے دو آدمیوں کو بے خبری سے سوتے دیکھا تو دونوں کو دشمنی کا بدلہ لینے کی نیت سے قتل کردیا حالانکہ ان کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیا ہوا امان نامہ موجود تھا۔ آپ نے ان دونوں کی دیت ادا کرنے کا فیصلہ کیا۔ آپؐ مسلمانوں اور یہودیوں سے دیت کی رقم جمع کرنے میں مشغول تھے کہ بنی نضیرکے محلے میں یہودیوں نے آپؐ  کو قتل کرنے کا منصوبہ بنالیا جو بعد میں بنی نضیرکے مدینہ سے اخراج کا سبب بنا۔

نبی کریم کی بددعائیں

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم،رحمت للعالمین ہیں لیکن مظلوموں کی دادرسی اور مدد، اور ظالموں کو آڑے ہاتھوں لینا اور ان پر بد عا کرنا صحیح احادیث سے ثابت ہے اور یہی رحمت ہے۔ مذکورہ بالا واقعہ سیرت وتاریخ کی کتابوں میں  بئر معونہ کے نام سے مشہور ہے جسے حادثۂ قراء بھی کہا جاتا ہے۔ آپ ؐ  کو ان دونوں واقعات کا اس قدر صدمہ ہوا کہ آپؐ نے ان پر ایک مہینہ لگاتار قنوت نازلہ میں بد دعا کی۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جن لوگوں نے آپ کے صحابہ کو بئر معونہ پربے دردی سے قتل کر ڈالا تھا آپ نے تیس روز تک ان پر بد دعا کی۔ آپ نماز فجرمیں  رعل، ذکوان، لحیان اور عصیہ پر بددعا کرتے تھے اور فرماتے تھے عصیہ نے اللہ  اور رسول کی معصیت کی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے وحی نازل کی جس میں شہید ہونے والوں کی حکایت اس طرح بیان ہوئی: ’’ہماری قوم کو خبر دو کہ ہم اپنے پروردگار سے بحالت رضا ملے ہیں اور ہم اس سے راضی ہیں۔ ‘‘اس کے بعد آپ ؐ نے قنوت کو پڑھنا بند کر دیا۔([14])

 بنی نضیر کی بد عہدی اور سزا

مذکورہ بالا واقعات کے بعد یہودیوں کی جرأت وجسارت اس قدر بڑھ گئی کہ انہوں نے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا فیصلہ کر لیا۔اس واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم بنی کلاب کے ان دو مقتولین کی دیت جمع کرنے کی غرض سے بنی نضیر کے پاس بھی تشریف لے گئے۔ آپ ؐ کے ساتھ حضرت ابو بکرؓ،حضرت عمرؓ،حضرت علیؓ اور دیگر صحابہ کرامؓ بھی تھے۔ آپؐ بنی نضیر کے ہاں ایک دیوار کے سائے میں تشریف فرما ہوئے اور دیت کی بات کی تو یہودکہنے لگےاے ابو القاسم! آپ کی منشاء کے مطابق ہم آپ کی مدد کریں گے۔ پھر وہ ایک دوسرے کے ساتھ علیحدگی میں ملے اور کہنے لگے بڑا اچھا موقع ہے، ایسا موقع دوبارہ نہیں ملے گا،کیوں نہ اس شخض سے جان چھڑا لی جائے۔ کوئی آدمی اس گھر کی چھت پر چڑھے اور اوپر سے ایک بڑا پتھر یا چکی کا پاٹ دے مارے۔ عمروبن جحاش نے کہا میں یہ کام کروں گا اور وہ مکان کی چھت پر چڑھ گیا۔ اُدھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے بذریعہ وحی اطلاع کردی اور آپ وہاں سے اٹھے اور واپس تشریف لے گئے۔([15])

صحابہ کرام اس سرعت  اور جلدی کو نہ سمجھ سکے اور وہاں سے آپ ؐ کی تلاش میں نکلے۔راستے میں  ایک شخص نے جو مدینہ سے آ رہا تھا، بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہر میں داخل ہو چکے ہیں۔ تب صحابہ کرام جلد ی سے وہاں پہنچے اور دریافت کیا تو آپؐ نے سب کچھ بیان کردیا۔پھر آپؐ نے فوراً ہی محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کو بنی نضیر کے پاس یہ حکم دے کر بھیجا کہ مدینہ چھوڑ دو۔تمہیں دس دن کی مہلت ہے، اس کے بعد تمہارا کوئی فرد یہاں دیکھا گیا تو اسے قتل کردیا جائے گا۔ اب ان کے لیے کوئی راستہ نہ تھا۔ انہوں نے سفر کی تیاریاں شروع کردیں لیکن عبداللہ بن ابی جس نے احد میں مسلمانوں سے دھوکا کرکے اپنی منافقت کا پردہ خود فاش کردیا تھا، بنی نضیر کے پاس پہنچ گیا اور کہنے لگا: ’’بھاگنے کی ضرورت نہیں، ڈٹ جاؤ،گھر بار کیوں چھوڑتے ہو؟ میرے دو ہزار آدمی تمہارے ساتھ قلعہ بند ہو کر لڑیں گے اور جان کی بازی لگا دیں گے اور اگر تمہیں نکلنا پڑا تو ہم بھی نکل پڑیں گے اور تمہارے بارے میں کسی کے آگے نہ جھکیں گے، تمہاری مدد کریں گے اور بنو قریظہ اور بنو غطفان بھی تمہارے ساتھ ہیں۔‘‘

یہ سن کر  یہودیوں نے اپنے بھاگنے کے ارادے ترک کر دیے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغام بھیجا کہ ہم اپنے گھر نہیں چھوڑیں گے تمہیں جو کرنا ہے کرلو۔

مسلمانوں نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ بنو نضیر نے رسول اللہ پر قاتلانہ حملہ  کرنے کی جو جسارت کی ہے، اس  کےلیے ان سے لڑنا ہے اور وقت وحالات کا تقاضا یہی ہے۔ ان حالات میں دب جانا ہمیشہ کے لیے دب جانے کے مترادف ہوگا چنانچہ جب حی بن اخطب کا جواب موصول ہوا تو آپؐ اٹھ کھڑے ہوئے اور ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو مدینہ کا والی بنا کر بنو نضیر کی طرف روانہ ہوگئے اور ان کا محاصرہ کر لیا۔ وہ لوگ قلعے کے اندر تھے۔انہوں نے مسلمانوں پر تیر اور پتھر برسانے شروع کردیے البتہ چند روز کے محاصرے کے بعد ہتھیار ڈال دیے اور کوئی بھی باہر سے ان کی مدد کو نہ آیا۔ ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا گیا اور انہوں نے مدینہ چھوڑنے کی اجازت مانگی تو آپ نے فرمایا کہ جتنا سامان اونٹوں پر لاد کر لے جاسکتے ہو لے جاؤ، بال بچے بھی لے جاؤ  البتہ ہتھیار ساتھ نہیں لے جا سکتے۔ ان لوگوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنے مکانات گرائے، کھڑکیاں دروازے کڑیاں اورکھونٹیاں تک لا د کر لے گئے جب کہ ان کے باغات، زمینیں، اسلحہ اور دیگر سامان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملکیت ہوا۔ آپؐ نے اس مال میں سے خود بھی رکھا اور مدینہ کے فقیر مہاجرین میں بھی تقسیم کیا۔ اسی واقعہ کے بارے میں تفصیلی احکام سورۃ الحشر میں بیان ہوئے جہاں مالِ غنیمت، مالِ فئے (جو دشمن سے جنگ كے بغیر حاصل ہو) اور جہادی احکام مذکور ہیں۔

[1]           ابن قیم، زاد المعاد: ۹۴/۲۔

[2]           ایضاً: ۹۷/۲۔

[3]           سیرة ابن ہشام:۲/۶۴۷-

[4]           منصور پوری، رحمة للعالمین: ۲/۴۴۶-

[5]           سورة النحل:۶۷۔

[6]           سورة البقرة:۲۱۹۔

[7]           سورة البقرة:۴۳

[8]           المستدرک علی الصحیحن کتاب التفسیر، ۳۱۵۵،۳۱۵۶۔

[9]           سورة المائدة:۹۰۔

[10]         الحاکم،المستدرک علی الصحیحین، حدیث نمبر:۳۱۵۶۔

[11]         قاضی عیاض نے یہی مفہوم بیان کیا ہے  جب کہ  اس کا دوسرا مفہوم  یہ بنتا ہے کہ میں واجب القتل ہوں، قتل ہوجاؤں گا تو آپ پر کوئی مواخذہ نہیں۔ اصل الفاظ ہیں:ان تقتل، تقتل ذادم

[12]         صحیح مسلم، حدیث نمبر:۱۷۶۴۔

[13]         سیرة ابن ہشام :۲/ ۸۳۔

[14]         صحیح البخاری، حدیث نمبر: ۴۰۹۰۔

[15]         البدایۃ والنہایۃ:۴/۸۵۔

Post a Comment

0 Comments